ایکنا نیوز- ایک اہم ترین روش جس کی مدد سے انسانوں کی تربیت کی جاسکت ہے وہ استدلال و دلیل پیش کرنا ہے. اس سے ہٹ کر کہ بعض لوگ دل طور پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں رکھتا تاہم وہ قدرت فکر ضرور رکھتا ہے ایسے لوگوں کی تربیت جو دوسروں کی اندھی تقلید نہیں کرتا یکساں نہیں اور انکے لیے یہ طریقہ کافی کار آمد ہے۔
وہ مربی جو استدلال لانے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ مخالفین سے کسی طرح کا خوف نہیں رکھتا وہ انکو فرصت دیتا ہے کہ وہ بات یا اعتراض کرے اور پھر انکو دلیل پیش کرتا ہے اور انکے شک کو دور کرتا ہے اور یہ تمام والدین اور اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی تربیت میں اسی روش کا استعمال کریں ورنہ بعض اوقات دوسرے طریقوں کے سنگین نتایج بر آمد ہوسکتے ہیں۔
اگرہم شاگرد یا زیر تربیت افراد کو قانع کرسکے کہ وہ اپنے برے عمل سے آگاہ ہوجائے تو وہ مان لیتا ہے تاہم بعض اوقات مربی زیر تربیت افراد کو قانع کیے بغیر زور زبردستی انکو اس عمل سے الگ کرنا چاہتا ہے تاہم اسکے نتائیج درست نہیں ہوتے ہیں۔
حضرت موسی(ع) جو خدا کے اہم رسولوں میں شمار ہوتا ہے وہ اسی روش سے استفادہ کرتا ہے
«اور (یاد کرو) جب اس وقت تم نے کہا: «اے موسی! هرگز ہم ایک قسم کے کھانے پر اکتفا نہیں کریں گے! اپنے رب سے کہو کہ روئے زمین پر اگنے والی سبزی جات میں کھیرا، لہسن اور پیاز کا اہتمام کریں » موسی نے کہا: «کیا برے غذا کو بہترین غذا پر ترجیح دیتے ہو؟! (اگر ایسا ہے تو کوشش کرو اس صحرا سے) کسی شھر کا رخ کرو؛ جو تم چاہتے ہو وہ وہاں موجود ہیں.» اور (مهر) ذلت و نیاز، اور بر پیشانی ان پر لگا دیا گیا؛ اور وہ معمولی غذب کا شکار ہوا؛ کیونکہ وہ آیات الهی کے مقابل کفر اختیار کرتا تھا د؛ اور رسولوں کو ناحق قتل کرتے. کیونکہ وہ گناہ کار اور تجاوز کرنے والے تھے.»(بقره:61)
اس آیت میں بنی اسرائیل کے لیے دو دلیل پیش کی گیی اگر وہ سمجھ دار ہوتے تو جان لیتے:
الف ( کفر اور خدا کے احکام سے اجتناب کرنے کے عوامل.
ب ( انبیا کا قتل قوانین الهی سے روگردانی
اس دلیل کی بنیاد پر بنی اسرائیل کو اس کے برعکس عمل کرنا چاہیے تھا ایک انکو رسولوں کا قتل نہیں کرنا چاہیے تھا تاکہ وہ ذلیل وخوار نہ ہوتے تاہم انہوں نے ایسا نہ کیا اور ذلیل و خوار ہوگئے۔/