آخری جمعہ یوم القدس اور عالم اسلام

IQNA

آخری جمعہ یوم القدس اور عالم اسلام

11:50 - May 11, 2021
خبر کا کوڈ: 3509275
امریکی اور برطانوی حکومتیں کان کھول کر سن لیں، پاکستان کا بچہ بچہ اور تمام اسلامی دنیا اپنی جانیں دے کر ان سے ٹکرا جائیں گے اور فرعونی دماغ کو پاش پاش کر دیں گے۔ قاید اعظم کا خطاب بمبئی

بت شکن ،مرد قلندر اور اپنی با بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت ایران کی سرزمین پر دو ہزار پانچ سو سالہ پرانی شہنشاہیت کو شکست دینے، دنیا کی متکبر طاقتوں کے خلاف مزاحمت اور خدا کے بھروسے دنیاوی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کا عملی نمونہ بنے والی شخصیت  امام خمینی نے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دیا،اور پوری دنیا میں اس روز مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے اور گھروں سے باہر نکلنے کا حکم صادر فرمایا۔ یوم القدس کے بارے میں امام خمینی کا یہ اقدام دراصل ان تمام رہبران، قائدین اور علماء اسلامی اور بلخصوص بانیان پاکستان کے جدوجہد کی تکمیل کے طرف  ایک اہم قدم تھا۔

پاکستان کے بانی محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنے خطوط، خطابات  اور قیادت کے ذریعے اُس وقت اصولی موقف اپناتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں پر واضح کردیا تھا کہ اسرائیل کا قیام امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم خطرہ ہے۔ علامہ اقبال نے اس وقت اعلان بالفور کے بعد صہیونی سازشوں اور فلطین میں ایک ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام کی مذمت اور اس کو ظلم قرار دیتے ہوئے برطانوی حکومت کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ برطانوی حکومت فلسطین میں جو پالیسی اختیار کررہی ہے وہ  سراسر ظلم اور ناانصافی ہے ۔ اسی طرح قائداعظم نے بھی اعلان بھی اعلان بالفور کے رد عمل میں فرمایا تھا:  برطانیہ نے اعلان بالفور کے ذریعے خود کو ان پر مسلط کر دیا  اور یہودیوں کے لیے قومی وطن بنانے کی پالیسی بنانے کے بعد برطانیہ اب فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے، اگر یہ نافذ کر دیا گیا تو عربوں کی اپنے آزاد وطن کی تمناؤں اور آرزوؤں کا خون ہو جائے گا۔ آپ نے 8 نومبر 1945ء کو قیصر باغ بمبئی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ''امریکی اور برطانوی حکومتیں کان کھول کر سن لیں، پاکستان کا بچہ بچہ اور تمام اسلامی دنیا اپنی جانیں دے کر ان سے ٹکرا جائیں گے اور فرعونی دماغ کو پاش پاش کر دیں گے...مفتی اعظم فلسطین نے آپ کے بارے کہا تھا کہ" صرف جناح ہی کی آواز ہم تک پہنچی ہے" ۔

ان اسلاف کی جدوجہد اور مقاومت ہی تھی جس نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کے فاؤنڈنگ فادر بن گوریان (Ben Gurion)  کو  پیرس کی ایک یونیورسٹی میں اپنے لیکچر میں یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ''عالمی صیہونی تحریک کو اپنے بارے میں پاکستانی خطرے سے بےپروا نہیں رہنا چاہیے. پاکستان اب اس کا اولین ہدف ہونا چاہیے، اس لیے کہ یہ نظریاتی ملک ہمارے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ سارے کا سارا پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے۔ ہمارے لیے خود عرب اسقدر خطرناک نہیں جس قدر کہ پاکستان ہمارے لیے خطرناک ہے۔ لہٰذا پاکستان کے خلاف فوری قدم اٹھانا عالمی صیہونیت کے لیے اشد ضروری ہے"...

آخری جمعہ یوم القدس اور عالم اسلام

مختصر یہ کہ امام خمینی کا  یہ اقدام اسی کھڑی کی تسلسل ہے امام خمینی یوم القدس کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ ایسا دن نہیں کہ جو فقط قدس کے ساتھ مخصوص ہو، بلکہ مستکبرین کے ساتھ مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ منافقین اور وہ لوگ جن کی پس پردہ بڑی طاقتوں کے ساتھ آشنائی اور اسرائیل کے ساتھ دوستی ہے، وہ یوم القدس سے لاتعلق رہتے ہیں یا قوموں کو یہ دن منانے  نہیں دیتے ۔

امام خمینی مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع اور فلسطینی مقاومت کی حمایت میں اسلامی اقوام کو متحرک کرنے پر یقین رکھتے تھے اور رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو "عالمی یوم قدس" کے نام سے اعلان کرنا امام خمینی کے اس آگاھانہ نقطہ نظر کی ایک مثال ہے۔

جب اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملے کیے تو حضرت امام خمینی نے تیرہ رمضان المبارک سنہ 1399 ہجری قمری کو درج ذیل پیغام کے ذریعے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر اعلان فرمایا: انکا پیغام کچھ یوں تھا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں نے عرصہ دراز سے، تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے کی طرف متوجہ کیا ہے، جس نے ان دنوں میں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر حملات کو شدید کر دیا ہے اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لئے، مسلسل ان کے گھروں پر بمباری کر رہا ہے۔

میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہو سکتا ہے، اس کو "یوم القدس" کے عنوان سے منتخب کرتے ہوئے، کسی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کے ساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کو اعلان کریں۔ اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو اہل کفر پر کامیابی عطا فرمائے۔

فلسطین پر قبضہ ہونے کے بعد ابتدا سے ہی امت مسلمہ کے اکابرین اور علماء نے اس کو مد نظر رکھا اور بہت ہی حساسیت کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کے درپے رہے ہیں۔ اس پرچم کو جو اسلاف کے ہاتھوں امام خمینی تک پہنچا تھا کو آگے بڑھانے اور  اسرائیل کے ناپاک وجود خطرے سے  امت مسلمہ کو آگاہ کر تے ہوئے امام خمینی  نے فرمایا تھا: "اگر امت مسلمہ نہ جاگی اور اپنے وظایف سے واقف نہ ہوئی، اگر علمائے اسلام نے ذمہ داری کا احساس نہ کیا اور اٹھ نہ کھڑے ہوئے، اگر واقعی اور اصیل اسلام جو اجانب کے خلاف تمام مسلمان فرقوں کے درمیان اتحاد و تحرک کا باعث ہے اور مسلمان اقوام اور اسلامی ممالک کی سیادت و استقلال کا ضامن ہے، اگر بیگانوں اور اجانب کے عوامل کے ہاتھوں اور سامراجی سیاہ پردوں کے اندر بھڑکنے لگے تو اسلامی سماجوں کے لئے اس سے بھی زیادہ سیاہ اور برے دنوں کا انتظار کیجئے اور اسلام کی بنیاد اور قرآن کے احکام کو بہت تباہ کن خطرہ لاحق ہے." اور یہی پیغام آج بھی ہر آزاد اور بیدار مسلمان کو کہہ رہی ہے کہ امت مسلمہ کی تمام تر مشکلات کی اساس اسرائیل کا ناپاک وجود ہے۔

امام خمینی نے ہمیشہ فلسطین کو بچانے اور صیہونیت کی توسیع پسندانہ ارادوں کو روکنے کے لئے امت مسلمہ کی اسلام حقیقی اور اتحاد کی طرف بازگشت کو ایک اساسی شرط سمجھا ہے ، اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد اسلام کی تباہی ہے ، انہوں نے مذہبی سمیت کسی بھی اختلاف کو ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ 

امام خمینی نے اسرائیل اور فرقہ واریت سے راہ نجات کو پیش کرتے ہوئے امت مسلمہ کو مخاطب کرکے کہاتھا: میرے نزدیک یہ ایک مطلب معمہ کی شکل اخیار کرچکی ہے اور وہ یہ تمام اسلامی ریاستیں اور ملت اسلامیہ یہ جانتی ہیں کہ یہ درد اور تکلیف کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ غیروں کے ہاتھ ہیں جو ان کو منتشر کررہے ہیں، دیکھ رہے ہیں کہ یہ فرقہ واریت ان کی نابودی اور ضعف کا سبب ہے، دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کی ایک کھوکھلی حکومت مسلمانوں کے  مد مقابل کھڑی ہے، کہ اگر مسلمان متحد ہوتے اور ہر پانی کی ایک ایک بالٹی اسرائیل پر بہاتے تو اسے یہ سلاب لے ڈوبتا۔

بقلم: ریاض احمد رضوی

نظرات بینندگان
captcha